بدھ، 11 مارچ، 2020

گوجری طرزِتحریر، عبدالرشید چوہدری

عبدالرشیدچوہدری، گوجری لکھاری

گوجری طرزِتحریر، عبدالرشید چوہدری

پنجابی ،پہاڑی، سرائیکی اور برِصغیرمیں بولی جانے والی کئی زبانوں کا کوئی اپنا رسم الخط یا طرزِتحریر نہیں ہے مجبوراً ان زبانوں نے عربی رسم الخظ کو اپنایا ہے جس سے کسی حدتک ان زبانوں کی ضروریات کو پوراکیا ہے مگردرجنوں الفاظ ایسے رہ جاتے ہیں جن کو عربی رسم الخط میں ہوبہواصلی تلفظ کے ساتھ نہیں لکھا جاسکتا۔ اس لئے کوشش ہونی چاہئے کہ اصل تلفظ سے قریب ترکو ترجیع دی جائے۔یہاں ایسے چند الفاظ کی نشاندہی کی جاتی ہے اور وضع شدہ طریقہ کو بھی پیش کیا جاتا ہے تاکہ گوجری لکھنے والوں کی راہنمائی کی جاسکے۔مثلاً پنجابی زبان میں بیٹی کو(دِھی ) کہاجاتاہے۔چونکہ یہ لفظ اپنی اصلی صوتی حالت میں (ت)سے نہیںلکھاجا سکتا لہذا’ت‘ کو دال سے بدل کر (دِھی)لکھا جاتا ہے۔اسی طرح گھوڑے کو(کہوڑا)نہیں بلکہ گھوڑا ہی لکھا جاتا ہے۔ بہن کو (پہینڑ) نہیں بلکہ بہن ہی لکھا جاتا ہے۔مثال کے لئے(سیف الملوک اور گلزاریوسف دیکھیں) سب سے بڑا مسلمہ گوجری زبان میںاڑنون [ن کے ساتھ ڑ]کے نہ ہونے کا ہے ۔اس لئے ہم پانی کو(پانڑیں) نہیں بلکہ پانی لکھنے پر مجبور ہیں۔یہاں’ڑ‘ کو(ن) سے بدلاجاتاہے) اور اسی طرح کے درجنوں حروف ہیں۔کانڑو، کھانڑو، نہانڑو، بعض جہ ب بھ یا پ میں بدل جاتی ہے جیسے پہائی(بھائی) اور کہیں دبھی ت میں تبدیل ہوتی ہے جیسے دھوبی(تہوبی)۔جن لوگوں کالکھنے پڑھنے سے متواتر سابقہ رہتا ہے وہ تو لکھنے دال اور پڑھتے ت ہیں جیسے دھرتی(تہرتی) مگر کسی کو اس طرح پڑھنے پر مجبور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

چونکہ گوجری زبان کا اپنا کوئی رسم الخط نہیں لہذا یہ پنجابی اور دیگرمقامی زبانوں کی طرح عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اورگوجری لکھنے کے لئے بھی وہی دشواریاں سامنے آرہی ہیں جو دوسری مقامی زبانوں کو درپیش ہیں۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لئے کافی عرصہ پہلے جموںکشمیراورضلع ہزارہ کے گوجری اہل علم ودانش نے پنجابی طرزِ تحریرکو اپنانے کو فیصلہ کیا تھا اورگذشتہ نصف صدی سے طرزتحریرکو ہی اختیار کئے ہوئے ہیںجس کی وجہ سے گوجری زبان میں لکھنا پڑھناقدرے آسان ہوگیاہے مگر الفاظ کی اس اصلی صورت میں ادائیگی کا کام ہنوزباقی ہے۔یہ طریقہ اگرچہ تھوڑی سی آسانی پیدا کرتا ہے مگرزبان کی حقیقی روح کو بھی فنا اور لفظ کی چاشنی کو بھی ختم کردیتا ہے۔ ہم پانی لکھ کر کسی کو پانڑی پڑھنے پر مجبور نہیں کرسکتے نہ بھائی لکھ کر پہائی پڑھایا جاسکتا ہے ۔برصغیرکے مشہور ادیب و شاعراور دورِ جدیدکے اکثر شعراءاور ادیب اسی طرزِ تحریرکو اپنائے ہوئے ہیں۔گوجری زبان میں لکھنے والوں کی اچھی خاصی تعدادکی رائے ہے کہ الفاظ کو اُن کی حقیقی اور صوتی صورت میں ہی لکھا جانا چاہیے۔دل تو ہمارا بھی یہی چاہتا ہے مگرکیا کیا جائے[اردو کے اسی لفظ پر غورہو)۔ہوسکتاہے آگے چل کر گوجری لکھنے کا کوئی کلیہ قاعدہ ایجاد ہونے سے یہ مشکل حل ہوجائے۔کیونکہ ہمارے پاس اپنی خودساختہ مجوزہ طرزتحریرکا سوائے چنداکابرین کی رائے کے کوئی ثبوت موجود نہیں لہذا طرزتحریرکے اختلاف کو لڑائی جھگڑے کی وجہ نہ بنایاجائے۔اختلافِ رائے کوئی بری چیز نہیں یہ انسانی جبلت میں شامل ہے جسے تسلیم کرلینا چاہئے۔میرا مقصدکسی دوسرے کی طرزتحریر کو رد کرنا نہیں ۔میں صرف اسی چیز پر زور دیتاہوں کہ گوجری میں لکھی گئی تحریرکم سے کم مشکل سے پڑھی جاسکے۔ مقبوضہ جموں کشمیرکے ریڈیواور ٹی وی کے علاوہ جموں اینڈکشمیرایکڈیمی اور کلچر اور لنگوجیز سے شائع ہونے والے لٹریچرکی بھی یہی طرزِ تحریرہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں اصلاح کی گنجائش نہیںاصلاح اور بہتری کے لئے سارے درکھلے رہنا چاہیںاورجوبھی قابل عمل بات سامنے آئے اسے اپنانے میں کیا حرج ہے۔

الحمدللہ بزمِ گوجری کے قیام کے بعد گوجری لکھنے والوں کی فہرست میں اضافہ ہورہا ہے اس کے علاوہ فیس بُک پر بھی شاعراپنا کلام نتھی کر رہے ہیںمشاہدے میں آیا ہے کہ ہرشاعر اور ادیب نے اپنی منفرد اور جداگانہ طرزتحریر اپنائی ہوئی ہے۔جس کی وجہ سے عام قاری ان کے کلام سے بھرپور استفادہ نہیں کرسکتااور خوبصورت کلام کو من پسندطرزِتحریرمیں لکھ کر کلام کے مزے کو کرکراکردیاجاتاہے جس کی وجہ سے بے وزنی کی صورتحال بھی پیدا ہوجاتی ہے۔

یہاںمیں نمونہِ کلام اور شعراءکے نام نہ ظاہرکرتے ہوئے گزارش کرتاہوں کہ بہتر یہی ہے کہ ہم سب اسی متفقہ اور مروجہ گوجری طرزتحریر کو اپناہیں۔ہمارا دعویٰ ہے کہ گوجری زبان اردو کی ماں ہے اردو کے اکثرالفاظ گوجری کے ہی ہیںلہذا اردو سے قریب تر ہوکر لکھنے سے زبان کو پڑھنے میں مشکل نہ آئے گئی۔ مثلاً گھوڑا، اردو زبان کا لفظ ہے بکروال قبائل اسے گھوڑا ہی بولتے ہیں اسے (کہوڑا) لکھنے سے دوسرے پڑھنے والا اسے کیا کیا پڑھے گا۔ اسی طرح بہن کو(پہنڑ) یا پانی کو(پانڑی) کہانی کو(کہانڑی) دِھی کو(تہی) دھرنے کو(تہرنا) کھانے کو(کھانڑو)اور دھرتی کو(تہرتی)لکھنے سے مشکلات پیدا ہوںگی۔بہت سارے الفاظ مجوزہ طرزِتحریر میں لکھنے سے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں مثلاً جھوٹی[جوان بھینس] کو چہوٹی ہی لکھنا مناسب ہے۔انپڑھ ہونے کی بنا پر عام لوگ گوجری کے سینکڑوں الفاظ غلط تلفظ کے ساتھ ادا کرتے چلے آئے ہیںان غلط الفاظ کو اصلی گوجری کے الفاظ گرداننا ٹھیک نہیں ہے۔جیسے راجو کو رایو،کھوجے کو کھویو اس کی بجائے ٹھیک اور اصل الفاظ کی ادائیگی ہی زبان کی خوبصورتی ہے۔اردو کی طرح گوجری زبان بھی باقی زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر سمولینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔جس طرح عربی فارسی انگریزی زبانوں کے پرانے الفاظ وقت کے ساتھ ساتھ متروک ہوتے جاتے ہیں اسی طرح گوجری کے غیرمستعمل الفاظ اپنی فادیت کھوجانے سے متروک ہوجاتے ہیں اُن کی جگہ نئے الفاظ لے لیتے ہیں۔ہمارے کلچر کے ساتھ جُڑی بہت سی چیزیں اب ختم ہو چکی ہیں جیسے ترام چُوڑ، چرکھو، تکوو، پٹو نیتو،کٹھاری، اوگ وغیرہ اسی طرح پرانے بوڑھوں کی گوجری زبان کے خالص گوجرے الفاظ بھی اب ناپیدہوچکے ہیں۔سچی بات تو یہی ہے کہ گوجری بولنے کا اصل مزہ تو ان ہی الفاظ اوراُسی ادئیگی میں تھا۔مگر کیا کیا جائے ہم نے آگے کی طرف بڑھنا ہے جس کی خاطر آگے نئے الفاظ نئی تعذیت کلچر اور ضرورتیں ہیں جن کے بغیرگزارہ ممکن نہیں ہے۔


لشکارِمحمدﷺ، عبدالرشید چوہدری

عبدالرشید چوہدری گوجری لکھاری


لشکارِمحمدﷺ،  عبدالرشید چوہدری

اپنا دین دھرم، دھرتی تے ماںبولی نال پیارانسان کی فطرت مانھ شامل ہے۔ انسان نا جہڑی گل اپنی ماں بولی نال سمجھ آئے وَہ کِسے سِکھی وی دُوجی زبان تیں نہیں آسکتی۔ماںبولی کی مِٹھی مِٹھی لوریںجہڑی مانواں نے بچاں نا اپنا دودھ کی دھاراں مانھ گھول کے پلائیںتے وَہ بولنائی جہڑی بچہ نے اپنی ماں تیں کلی زبان نال بولنی سِکھی اُس کی مِٹھاس بیان کرتاںواں اکھراں کی جھولی مُچ سوڑی پے جائے۔ جس طرح دنیاوی علوم ناسکھن سمجھن واسطے دنیا نے مادری زبان کی لوڑ نا من لیو ہے اِسے طرح دین سمجھن واسطے بھی مادری زبان کی لوڑ تیں مُکریو نہیں سکتو۔

  بدقسمتی نال مہارا ملک مانھ گوجری زبان نال ماتریری آلو برتاءکیوجا رہیوہے جس کی وجہ نال گوجرو کلچر، ادب تے زبان سخت خطرہ مانھ ہیں۔حکومتی عدم دلچسپی تے مہاری اجتماعی بے حسی کے باوجود کُجھ لوگ اپناداھروںماںبولی کا اکھر چُن چُن سے سام رہیا ہیں ان چونما نانواں مانھ مفتی ادریس ولی ہوراں کو ناں علم تے ادب کا اشمان پر لوءکا تارا ہاروں روشن دہسے۔           

گوجری زبان مانھ شاعری کو کھُروتے مُچ پہلاں لبھے پر اِس زبان مانھ نثرنگاری کی رِیت مُچ چِرکی پئی۔  جموں کشمیر کلچرایکڈیمی سرینگر، آزاد کشمیر ریڈیو تراڑکھل ، مظفرآباد تے مقبوضہ جموں کشمیر کا ریڈیو سٹیشناں کی وجہ تیں گوجری نثرکو لوڑ پئی تے پھر اس کو رواج پیو۔ اِسے دور مانھ گوجری زبان مانھ افسانہ ڈرامہ تے فیچربھی لکھیا جان لگا تے قرآن پاک کو ترجموبھی ہوو ۔ مولانا ڈاکٹر نورمحمدبھدرواہی(مرحوم) کی سوہنو قصو ( سورة یوسف تفسیر)تے پروفیسرافضل جوہرہوراں کی کتاب بھی نثری سلسلہ کی اک اہم کڑی ثابت ہوئیں۔ہُن مفتی ادریس ولی ہوراں نے نبی پاک کی سیرت طیبہ بارے لشکارِمحمد لکھ کے گوجری زبان کا نثرنگاری مانھ چوکھو باہدو کردِتوہے۔

گوجری زبان کو اپنو رسم الخط نہ ہون کی وجہ نال اس زبان نا لکھن کی اوکھت اپنی جگہ ہیں   باقی زباناں کی طرح گوجری زبان مانھ بھی مختلف لہجہ ہیں جہڑا اس زبان کو سوہنپ ہیں۔ مہاری یہ مجبوری ہے جے ہم عربی رسم الخط مانھ ہُوبہو گوجری نیں لکھ سکتا ۔ لہذا کوشش یاہی ہونی چاہئے جے پنجابی کی طرح اردو کے نیڑے نیٹرے رہ کے لکھیو جائے تانجے لکھی وی تحریرسٹ پسٹاں تے بے سوادو کئے بغیر، گھٹ تیں گھٹ اوکھت نال پڑھی جا سکے۔

لشکارِمحمدکا مطالعہ تیں پتوچلے کہ مفتی ادریس ولی ہوراں کی نثرنگاری پر باٹی پکڑ ہے۔تحریرکی لذت، بھُلیابِسریا وا اکھراں کا خوبصورتی تے احتیاط نال استعمال تے عبارت کا تسلسل تیں پڑھن کو سواد چوکھوہو جائے۔اس کتاب کا مطالعہ تیں یہ گل بھی باندے آئی ہے کہ مفتی ادریس ولی ہورسرکارِدوعالم کی زندگی کی اُن گُٹھاں نا باندے رکھ کے لکھ رہیا ہیں جن کا لشکاراں نے ساری دنیا نا روشن کیوتھو۔مفتی ہوراں کی تحریرمانھ فرقہ واریت،عدمِ برداشت تے ٹک پَچھ لاتی کائی گل نہیں۔لشکارِمحمد کا مطالحہ تیں یاہ گل بھی باندے آئی ہے جے مفتی ادریس ولی ہوراں کی سرکارِ دوعالمﷺ کی زندگی مبارک پر مُچ ڈوہنگی نظر ہے۔مفتی ہوراں نے آپﷺکی زندگی کا عملی نمونہ صبر، برداشت ، تعمل ، رواداری، دشمناںنا معاف کرنو، بدلو نہ لین جیسا ہِیرا موتی چُن چُن کے مہارے باندے رکھیا ہیں جے ہم یہ ہی نگینہ لا کے اپنی اپنی زندگی چمکا لہیاں۔ بدلہ کو چاءتے دُوجاں کا عیب ٹٹولن کی عادت اک بڑی انسانی کمزوری تے یاہی فساد کی جڑ ہے۔ کدے ہم سیرت پاک کی چھاں ہیٹھ بیس کے دُوجاں نا معاف کرن کی اٹکل سِکھ لہیاں تے لوکاں کا پِچھوکنڈ عیب پھلورنا چھوڑ دہیاں تے مہارو معاشرو تے آخرت سُدھر سکے۔مفتی ادریس ولی ہوراں نے نبی پاکﷺ کی اِن ہی مبارک عادتاں داھر مہاری توجہ موڑی ہے۔ فرقہ واریت کی بیماری کی وجہ نال زباناں تیں لم تے تحریراں تیں زہرکڈھن آلاں نا مفتی ادریس ولی ہوراں نے روشن رستو دس چھوڑیو ہے ۔مفتی ہوراں نے یہ جاچ بھی دسی ہے کہ دین کی زرخیزباڑیاںمانھ جھل کنڈاں کی فصلاں کی بجائے پیار محبت تے اخوت کی ہل باہی بھی کی جاسکے ۔ مفتی ادریس ولی ہوراں نے لشکارِمحمد مانھ عرب کی تہذیب تمدن تے  عرب اقوام کی تاریخ نا بھی شامل کیوہے جس تیںعام آدمی کا علم مانھ باہدو ہوئے گو۔

عالمِ اسلام کاموجودہ حالات نا دیکھتاں واں اسراں لگے جے ہُن وُہ ویلو پہنچ آیو ہے جس کابارے آپﷺنے دسیوتھو جے میری اُمت پر اک ایسو ویلو آئے گوجدمسلماناں پرکافر اس طرح ٹُٹ پوویں گا جس طرح بھُکھا روٹی پر ۔اج اُمت مسلمہ پر اتنی بڑی مصیبت آئی وی ہے جہڑی اس تیں پہلاں کدے بھی نیں آئی تھی۔ اس بلاءکو مقابلو کرن واسطے ضروری تھوکہ ہم سارا مسلمان اللہ پاک کی مرضی موجب اکٹھا ہوکے اُس کی رسی نا پکڑ لیتاتے بکھو بکھ نہ ہوتا۔مگربدقسمتی نال ہم ساراں نے رل مل کے اللہ کی رسی نا ادھریڑ چھوڑیو ہے تے اپنی اپنی لڑ پکڑ کے چھک رہیاہیں۔کئی کئی فرقاں مانھ بنڈیاوامسلماناں کے درمیان نفرت ، تعصب تے تنگ نظری کا ہمالیہ تے اُچا پہاڑ کھلا ہیں جد کہ ان کا مقابلہ مانھ عالم کفر متحد، منظم تے یک سو ہے۔اس دور کی یاہی ضرورت ہے کہ علماءتے دانشور اُمت ِ مسلمہ کا مفاد کی خاطر فرقہ واریت کے خلاف سانجھی کوشش کریں ۔ اس کوشش کی بوہنڑی کدے گوجری زبان نال ہوئی تے یہ مہاری خوش قسمتی ہووے گی۔ میراخیال مانھ مفتی ادریس ولی ہوراں کی لکھی وی لشکارِمحمدﷺ وطنِ عزیز کا علماءکی توجہ اس پاسے بھی موڑے گی تے لشکارِ محمد کا لشکارتیںجہالت، تنگ نظری، خودغرضی، فرقہ پرستی نسلی تے لسانی تعصب کی شاہ کالی رات روشن ہوجائے گی۔

لشکارِمحمدکا مطالعہ تیں اِسراںلگے کہ مفتی ادریس ولی ہوراں نے سرکارِ دوعالمﷺکی سیرت طیبہ کو بڑی ڈوہنگی نظرنال مطالعوکِیوہے تے یہ کوشش کی ہے کہ سیرتِ طیبہ کی لوء مانھ اندھیراںمانھ ڈابوںدیتاںکا رستہ روشن کیاجائیں۔ہُن عالمِ اسلام کا علماءتے دانشوراں نا مومن کی بصیرت نال عالمِ اسلام کی راہنمائی کرنی ہے تانجے ماضی مانھ دینِ اسلام کا پِنڈا اُپر فرقہ واریت تے عدمِ برداشت کا جہڑا جہڑا پَچھ یہودونصاریٰ کی proxies لڑن کی وجہ تیں لگا تھا وِہ مول جائیںگا۔اج کا مسلمان کو کردارتے اللہ پاک نا مطلوب مسلمان کی تعریف کوئی جوڑ نہیں کھاتی ۔ ماضی قریب مانھ مہارا ہتھوں اس دھرتی کا سینہ پر جہڑا جہڑا داغ دھبالگااُس کی چھنڑک اسلام کا خوبصورت چہرا پر بھی پئیں۔ اِسے وجہ تیں اج اکسفورڈ کی ڈکشنری مانھ اسلامو فوبیاکی اصطلاح شامل ہوچکی ہے جس کو مطلب اسلام کو خوف ہے گویا کہ اسلام خوف تے ڈرا آلو مذہب ہے۔ اسلام بارے اس غلط تاثر نا ٹھیک کرنوبھی علماءتے دانشوراں کی ذمہ داری ہے۔اِس دور کو سب تیں بڑو تقاضو یوہی ہے جے اہل علم کا قلم تے زبان اس اُمت نا پھر تیں ملتِ واحدہ بنان کی خاطر لگ جائیں تے سیرت پاک کی لوءمانھ مسلماناں کی کردار سازی کریں۔اج مہاری اپنی کوتاہیاں کی وجہ نال دین اسلام کا چن ہاروںچمکتا چہرہ پر جہڑا داغ دھبہ پے گیا ہیں اُنہاں نا اپنا عمل تے کردار کی لوءنال صاف کرن کی ضرورت ہے۔جہڑو کم مہاراعمل نال خراب ہوو ہے وہ تبلیغ نال نہیں بلکہ عمل نال ہی سِدھو ہوسکے۔لشکارِمحمد کی لوءمانھ اج کا مسلمان نا اپناکردار نا قرآن تے سُنت نال جوڑ کھاتو بنان کی لوڑ ہے۔

مفتی ادریس ولی ہوراں نے لشکارِمحمدنال اپنی قوم نا بنی پاک ﷺ کی سیرت کی لوءدین کی کوشش کی ہے۔ہُن ہمناں اِسے لوءمانھ اپنا کردار کی تعمیر کی لوڑ ہے۔ کیونجے اج character building (کردارسازی) کو دور ہے تے کردار کُشی کا دہیاڑا لنگھ گیا ہیں۔ میری دعاہے کہ اللہ پاک مفتی ہوراںکو ناں تے چہرو دوہاںجہاناں مانھ روشن رکھے(آمین)۔میرو خیال ہے کہ انسان کا چہرہ پر نور اس کا اپنا اندرکی خوبصورتی کو عکس ہوئے۔کدے کوئی اندروں روشن ہے تے اس کو چہرومہروبھی لاٹ مارے تے اسے طرح اندرکی کالکھ بھی چہرہ پر آکے کھِنڈجائے۔مفتی ادریس ولی ہوراں کو چہرومہرو بھی یہ گل دس رہیو ہے کہ وِہ اندروں روشن ہیں۔مناں امیدہے کہ یہ روشنی ویلے کے نال نال ہورلشکے گی تے وِہ اپنی تحریراں تے تقریراں کے ذریعے عالمِ اسلام کی یکجہتی، معاشرتی بگاڑ تے عدمِ برداشت کے خلاف جہدی کرتا رہنگا۔

وماعلینا الالبلاغ


جمعہ، 6 مارچ، 2020

لِیا تیں پہلیوں، کتاب: راز حیات، مصنف: مولانا وحید الدین خاں، گوجری مترجم: ابرار حسین گوجر

گوجری مترجم: ابرار حسین گوجر
لِیا تیں پہلیوں

انگریزی غو مقولو ہے کہ "ہوؤں دیاں تاں ہی ہوؤں لیاں"
In giving that we receive
دنیا بنایا آلا نیں دنیا غو یو قانون بنایو ہے کہ" اِت جیہڑو دئیے غو اُوئی لئیے غو"۔ جس کول دتا واسطے کوئی ناں وے اُو لِیا غو خیال وی کَڈ شوڑے۔
دنیا وچ مہارے چوئیں پاسیں خدا نیں انتہائی مکمل حالت وچ یو قانون ترتیب دِتو وُہ ہے۔ اِت ہر چیز ناں اپنڑوں وجود قائم رکھیا واسطے دوآں کولوں کوئی ناں کوئی لینڑوں پے۔ پر ہر چیز اس اصول اپر چلے کہ جِتنوں لیے اس تیں زیادے واپس کریا غی کوشش کرے۔
بوٹا غی مثال لیو، بوٹو زِمیں تیں معدنیات تے پانڑیں لئیے، ہوا تیں نائٹروجن لئیے، سورج تیں حرارت لئیے، اِس طرے پوری کائنات کولوں اپنڑیں غذا لے غے اُو اپنڑاں کمال تک پہنچ یائے۔ پر اس تیں بعد اُو کے کرے؟ اُس تیں بعد اسغو سارو وجود دوآں واسطے وقف ہو یائے۔ اُو دوآں ناں سایو دئیے، لکڑی دئیے، پھُل پھَل دئیے۔ اُوس غی  ساری  حیاتی دیتاں ہی لنگ یائے تے دیتاں دیتاں ہی اُو مُک یائے۔
یوہی حال کائنات غی ہر اک چیز غو ہے۔ ہر اک چیز دوآں ناں دِتا وچ تے انہاں ناں نفعو پہنچایا وچ مصروف ہے۔ سورج، دریا، پہاڑ، ہوا ہر چیز دوآں ناں نفعو پہنچایا وچ لگی وی ہے۔ کائنات غو دین نفعو دینڑوں ہے نہ کہ حقوق غو واویلو کرنوں۔
اس دنیا وچ صرف اک ہی مخلوق ہے جیہڑی دِتا بغیر لینڑوں چاہے، اُو ہے انسان۔ انسان اک پاسوں دوآں ناں لُٹے ، اُو دوآں ناں دِتا بغیر اُناں کولوں لینڑوں چاہے، انسان نفع بخش بنڑیا بغیر نفع خور بَننوں چاہے۔
انسان غی یا فطرت خدا غی اسکیم تیں خلاف ہے، یا کائنات غا عام مزاج نالوں ہَٹ غے ہے۔ یُو تضاد دَسے کہ اِنہاں لوکاں واسطے موجودہ دنیا وچ کامیابی مقدر نیں۔ اِس دنیا وچ کامیابی صرف انہاں لوکاں ناں لَبھ سکے جیہڑا  اِس وسیع کائنات نال اپنڑاں آپ ناں ہم رنگ کر لیں۔ جیہڑا دِتا آلی اس دنیا وچ خود وی دِتا آلا بنڑں یاہیں،  ناں کہ دِتا آلی دنیا وچ صرف لِیا آلا ویں۔


کتاب: راز حیات، مصنف: مولانا وحید الدین خاں، گوجری مترجم: ابرار حسین گوجر

بوٹو، کتاب: راز حیات، مصنف: مولانا وحید الدین خاں، گوجری مترجم: ابرار حسین گوجر

 گوجری مترجم: ابرار حسین گوجر
بوٹو

بوٹا غو اک حصو تنو وے تے دوؤ حصو  جَڑ ویں۔ دَسیں کہ بوٹا غو جتنوں حصو اوپر وے تقریبا اتنوں حصو ہی زِمیں  وچ جڑاں غی صورت پھیلیو  وُہ وے۔ بوٹو زِمیں اوپر اسے ویلا تک  اپنڑوں اک حصو ہرو بھرو رکھ سکے جس ویلا تک  او اپنڑاں دوآ حصہ ناں زِمیں اندِر  دفن کریا واسطے تیار وے غو۔  بوٹا غو یو نمونوں انسانی زندگی واسطے خدا غو سبق ہے۔ اس تیں پتو لگے کہ زندگی بنڑایا واسطے تے اس غا  استحکام واسطے لوکاں ناں کے کرنوں چاہی غو ہے۔
اک مغربی مفکر نیں لخیو ہے کہ:
Root downward – fruit upward. That is the protocol. The rose comes to perfect combination of colour, line and aroma atop a tail stem. Its perfection is achieved, however, because first a root went down into the homely matrix of the common earth. Those who till the on gathering the fruit that it has been easy to forget the cultivation of the root. We cannot really prosper and have plenty without first rooting in a life of shining. The born of plenty does not stay full unless first there is rooting in sharing. 
جڑ تھَلے تے پھل اوپر، یو خدائی اصول ہے۔ گلاب غو پھُل رنگ تے خوشبو غو سوہنڑوں مجموعو ہے، جیہڑو اک تنا غے اوپر لگے۔ پر پھُل کھِلیا  تک غو عمل دیخو  کہ پہلیوں اک جڑ مِٹی غے اندر جائے، جیہڑا  لوک کھیتی باڑی کریں اُو اس اصول تیں واقف ایں۔ پر ہوؤناں پھلاں وچ اتنی دلچسپی ہے کہ ہوؤں پھُل تے حاصل کرنوں چاہاں پر جڑ لایا غے پاسے دھیان نیں دیتا۔ ہوؤں سچ مُچ غی ترقی تے خوشحالی اس ویلا تک نیں حاصل کر سکتا جس ویلا وک ہوؤں مشترک زندگی وچ اپنڑیں جڑ نہ داخل کراں ۔ مکمل خوش حالی مشترک  زندگی  وچ جڑ داخل کیا بغیر ممکن نیں۔
بوٹو زِمیں تیں اوپر کھڑو وے۔ پر او زمیں غے اندر اپنڑیں جڑ پھیلاتو رہے۔ او تھلا تیں اُپھراں  غو سفر طے کرے ناں کہ اپروں  بُنڑاں غو۔ بوٹو قدرت غی طرفوں استاد ہے جیہڑو یو  انسان ناں یو سبق دئیے کہ "اس دنیا وچ داخلی ترقی تیں بغیر خارجی ترقی ممکن نیں"


کتاب: راز حیات، مصنف: مولانا وحید الدین خاں، گوجری مترجم: ابرار حسین گوجر

زندگی غی قوت، کتاب: راز حیات، مصنف: مولانا وحید الدین خاں، گوجری مترجم: ابرار حسین گوجر

 گوجری مترجم: ابرار حسین گوجر
زندگی غی قوت

گھر غے بیہڑے اک بیل اُگی وی تھی۔ مکانڑں غی مرمت ہوئی تے بیل ملبہ وچ دبی غئی۔ بیہڑا غی صفائی کرواتاں مالک نیں بیل کپوا شوڑی تے کھودائی کروا غے دورتک اس غیں جڑ وی کڈہا  شوڑیں۔ اس تیں بعد پورا بیہڑا وچ اِٹاں غی سولنگ کر غے فرش باء شوڑیو۔
تھوڑا عرصہ تیں بعد بیل آلی جاء کول اک ہور کم ہوؤ۔ اُتوں اِٹ تھوڑی  اُبِر آئیں۔ اس طرح لگے تھو کہ کسے نیں ہُندغے انہاں ناں پَٹ شوڑیو ہے۔ کوئی بولیو کہ یو کم چوہاں غو ہے تے کسے نیں کوئی ہور قیاس کیو۔  پر جس ویلے اِٹ اُتوں ہٹائیں تے پتو لگو کہ بیل غو پودو اُت مُڑی وی شکل وچ موجود ہے۔ بیل غیں جڑ زمین غے اندر رہ غئیں تھیں۔ او بدتاں بدتاں اِٹاں تک پہنچیں تے ہونڑں اوپر آیا واسطے زور ماریں تھیں۔
" ایہہ پتیں تے کونپل جنہاں ناں ہتھ وچ مسلئیو یائے تے آٹو ہو یائیں، اِنہاں غے اندر اتنی طاقت ہے کہ ایہہ اِٹاں غو فرش تروڑ غے اپر آ یاہیں" مالک مکان نیں کیہو "ہوں انہاں غی راہ وچ نیں آتو۔ جے کدے یاء بیل میرے کولوں دوارے زندگی غو حق منگے  تے ہوں اسناں یو حق دیوں غو"۔  مالک مکان نیں دو چار اِٹ پَٹ غے بیل واسطے جاء بنائی۔ اک سال بعد ٹھیک اسے جاء تقریبا پندرہ فٹ اُچی بیل کھَلتی وی تھی جِت اسناں ختم کریا واسطے اس تیں اوپر اِٹ جوڑ غے پختہ فرش بنا شوڑیو تھو۔
پہاڑ اپنڑیں ساری وسعت تے عظمت غے باوجود اتنی طاقت نیں رکھتو کہ اک گیٹا ناں  اک جاء تیں دوئی جا کر سکے۔ پر نکا جیہا بوٹا وچ اتنو زور ہے کہ او پتھر غا فرش ناں اک پاسے کر غے باہر آ رہے۔ اتنی طاقت اس غے اندر کتِوں آئی ہے۔ اس طاقت غی بنیاد فطرت غی واہ قوت ہے جسناں "زندگی" کہیں۔ زندگی کائنات غی حیرت انگیز حقیقت ہے۔ زندگی اک ایسی طاقت ہے جسناں کوئی دبا نیں سکتو۔ اسناں کوئی ختم نیں کر سکتو۔ اسناں پھَلیا  پھُلیا  غا حق تیں کوئی محروم نیں کر سکتو۔
زندگی ایسی قوت ہے جیہڑی دنیا وچ اپنڑوں حق لے غے چھوڑے۔ جس ویلے زندگی غیں جَڑ تک کَڈ شوڑیں یائیں فئیر وی واہ اپنڑوں وجود باقی رکھے تے موقعو ملتاں ہی دوبارہ ظاہر ہو یائے۔ جس ویلے دیخیا آلی اکھ یو یقین کر لئیے کہ زندگی غو خاتموں ہو غئیو ہے۔ اسے ویلے  خاص اُسے جاء تیں واہ اپنڑوں سِر کَڈ ے جِتوں اُس غو خاتموں کیو غئیو تھو۔

کتاب: راز حیات، مصنف: مولانا وحید الدین خاں، گوجری مترجم: ابرار حسین گوجر

قدرت غی مثال، کتاب: راز حیات، مصنف: مولانا وحید الدین خاں، گوجری مترجم: ابرار حسین گوجر

 گوجری مترجم:  ابرار حسین گوجر
قدرت غی مثال
شکاریات غا اک ماہر نیں لخیو ہے کہ "شیر عام طور اوپر اس ویلے آدم خورہو یائے جس ویلے بڑھاپا غی وجہ تیں او وحشی جانوراں غو شکار نیں کر سکتو۔ پر 10 وچوں 9 آدم خور شیر او ویں جنہاں ناں انکہڑ شکاری غلطی نال زخمی کر شوڑیں"  (ٹائمز آف انڈیا 21 مئی 1984):
The big cats turn into man-eaters often when they are too old to hunt and trap wild animals. But nine times of ten, they do so because a poacher has wounded them.
شیر اپنڑیں فطرت غا اعتبار نال آدم خور نیں۔ پر او ساراں جانوروں وچوں زیادہ "دشمن خور" ہے۔ شیر جسناں اپنڑوں دشمن سمجھ لئیے اسناں کسے حال وچ وی نیں بخشتو۔ عام طور اوپر شیر کسے انسان ناں دیختاں ہی پاسو مار یائے۔ پر او شکاری جنہاں کول چنگا ہتھیار ناں ویں یا او اناڑی پن نال شیر اوپر فائر کرغے اسناں ماریا غے بجائے زخمی کر شوڑیں۔ اے جیہا زخمی شیر ہی آدمی ناں اپنڑوں دشمن سمجھ لیں تے آدم خور ہو یائیں۔ ایہہ جس ویلے وی کسے انسان ناں دیخیں تے اسناں ختم کیا بغیر نیں رہتا۔
یو زندگی غو اک قانون ہے۔  یو قانون  جسطرح شیر تے انسان واسطے ٹھیک ہے اسے طرح انسان تے انسان واسطے وی یوہی قانون لاگو وے۔  اک آدمی غو معاملو وے یا اک قوم غو ، دواں حالتاں وچ دنیا غو یوہی اصول ہے کہ جس دشمن ناں تووں مار نیں سکتا  اسناں زخمی کریا تیں وی بچو کیوں جے زخمی دشمن تھارے واسطے زیادہ خطرناک ہے۔
اک بندو تھارو دشمن ہےتے تووں پوری تیاری تیں بغیر  جے کدے اس اوپر وار کرو غا  تے تھارو یو عمل تھارے واسطے اپنڑیں ہتھیں اپنڑیں کوور(قبر) خود   کھونڑیا غے برابر ہے۔  اس قسم غا کماں وچ بے صبری تیں علاوہ ہور کوئی گل نیں ہوتی۔ جنہاں لوکاں غے اندر یا صلاحیت نیں ہوتی کہ او سوچ سمجھ غے کوئی منصوبو بنائیں تے خاموش جدوجہد غے نال اپنڑاں آپ ناں مضبوط قدم چایاء غے قابل بنائیں ایہی او لوگ ہیں جیہڑا دشمن اوپر سطحی وار کر غے اسناں ہور زیادہ دشمن بنا لیں۔ تے بعد وچ شکایتاں غا امبھار لا شوڑیں۔ حالاں کہ اس دنیا وچ جھوٹاں کماں غی کوئی قیمت نیں تے ناں جھوٹیاں شکایتاں غی کسے ناں کوئی پروا ہے۔

کتاب: راز حیات، مصنف: مولانا وحید الدین خاں، گوجری مترجم:  ابرار حسین گوجر

سنبھل غے چلو، کتاب: راز حیات، مصنف: مولانا وحید الدین خاں، گوجری مترجم: ابرار حسین گوجر

 گوجری مترجم:  ابرار حسین گوجر
سنبھل غے چلو
چھوٹا جانوراں ناں جے کدے ندی پار کرنی وے تے اُو پانڑیں وچ تیزی نال چل غے نکل یائیں۔  پر ہاتھی جس ویلے ندی پار کرے تے اُو تیز چلیا غے بجائے ہر قدم اوپر رُک رُک غے چلے۔ اُو ہر قدم بہت احتیاط نال رکھ غے ندی پار کرے۔  اس فرق غی وجہ یا ہے کہ لوہکا جانوراں ناں کوئی خطرو نیں ہوتو کہ پانڑیں تیں تَھلے مِٹی نرم ہے یا سخت ، انہاں غو ہلکو پُھلکو جسم آسانی  نال لنگ یاہے۔  پر ہاتھی غو جسم بہت بڑو تے وزنی وے ۔ پہاری جسم غی وجہ تیں اسناں یو خطرو وے کہ جے کدے پانڑیں تیں تھلے مِٹی نرم ہوئی تے اس غو پیر اس وچ پھس یاہے غو، تے اس واسطے مشکل ہو یاہے غی۔ یاہی وجہ ہے کہ ہاتھی جس ویلا توڑی دیخ ناں لیئے کہ پانڑیں تیں تھلے مِٹی مضبوط ہے اُو قدم اگے نیں بڑھاتو۔ دوئی گل کہ ہر قدم اوپر اُو اپنڑوں پورو  وزن نیں باہتو بلکہ ہلکو قدم رکھ غے پہلیوں اُو نرمی تے سختی ناں دیخے فئیر جے کدے زمین سخت وے تے تاں اُو اپنڑوں پورو بوجھ باء غے اگے لنگے۔
یو طریقو ہاتھی ناں کس نیں سکھایو ہے؟  جواب ہے اللہ نیں۔  اس غو مطلب ہے کہ ہاتھی غا اس طریقہ ناں خدائی تائید  ہے۔ اس غو مطلب یو ہے کہ جے کدے راہ وچ کوئی خطرو وے تے تاں اس طرح نہ ٹریو جائے جس طرح  بے خطر رستاں اُوپر آدمی ٹُرے بلکہ پر قدم سمال سمال غے بائے، "زمین" غی سختی غو اندازو کر غے اگے لنگے۔
بندہ ناں اللہ نیں ہاتھی کولوں زیادے عقل دتی ہے۔ جِت بارود غو ذخیرو وے اُت اُو دیا سلائی نیں بالتو۔ جس ٹرین وچ پٹرول غا ڈبہ لگا وا ویں ، اس غو ڈرائیور بے احتیاطی نال شنٹنگ نیں کرتو۔ پر اِسے اصول ناں لوک سماجی زندگی وچ پھُل یاہیں تے اُو طرح طرح غا حالات پیدا کرتا رہیں۔ سماج غے وچ کِتے "کچڑ" وے تے کِتے  "پٹرول"، کِتے   "کنڈا" ویں تے کِتے  " کھڈا"۔  عقل مند اُو ہے جیہڑو اس قسم غا سماجی مسلاں تیں کنی کترا غے نِکل  یائے نہ کہ انہاں وچ الجھ غے اپنڑیں راہ کھوٹی کرے۔
جس آدمی غے سامنڑیں کوئی مقصد وے اُو راہ غا مسلاں وچ نیں الجھتو کیونکہ اُو جانڑے کہ انہاں مسلاں وچ پے غے اُو اپنڑاں مقصد تیں دور ہو یائے غو۔ بامقصد آدمی غی نظِر سجے کبھے نیں ہوتی بلکہ سدھی وے۔ اُو صرف اپنڑیں منزل دَر دیخے ناں کہ وقتی بے مقصد کاروائیاں دَر ، اُو حقیقت غی نسبت نال چیزاں ناں دیخے ناں کہ ذاتی خواہشاں غی نسبت نال۔

کتاب: راز حیات، مصنف: مولانا وحید الدین خاں، گوجری مترجم:  ابرار حسین گوجر

گوجری:ایک تعارف، کتاب: گوجری کے ادبی و لسانی مطالعے مصنف: پروفیسر محمد نذیر مسکین

محمد بشیر کھٹانہ
گوجری:ایک تعارف
 انتخاب: محمد بشیر کھٹانہ

گوجری ہند آریائی زبان ہے۔سنسکرت کی سخت لسانی پالیسی یعنی برہمنوں کے ہاں مقید ہونے کی وجہ سے عوامی بولیاں سنسکرت سے رفتہ رفتہ الگ ہو گئیں۔ان کو پراکرت کہا جاتا ہے۔ان کا دور، 500 ق م سے 700ء کے لگ بھگ ہے۔یہ پراکرتیں اپنے بعد کے دور میں اپ بھرنش کہلائیں۔مختلف علاقوں کی اپ بھرنشوں کے نام بھی مختلف ہوتے گئے۔ان میں سب سے بڑی اپ بھرنش شورسینی تھی۔اسکی حدیں دوسری اپ بھرنشوں سے ملتی تھیں۔اس نے دوسری اپ بھرنشوں کو بھی ایک دوسرے کے قریب کر دیا۔700 سے 1000ء کے درمیان غالباً شورسینی اپ بھرنش ہی برصغیر کی لنگوافرینکا تھی۔چونکہ ہندوستان کی ریاستیں مختلف حکمرانوں اور قبائل کے زیرنگیں تھیں۔اس لیئے ان مختلف علاقوں یا ریاستوں میں بولی جانے والی اپ بھرنشائیں اور ان کے لہجے بھی مختلف ناموں سے پکارے جانے لگے۔ہندوستان کے جن علاقوں(خصوصاً گجرات) پر گُجر حکمران تھے وہاں کی اب بھرنش گوجری کہلائی۔اس قوم کیلئے تاریخ عالم میں مختلف نام استعمال ہوتے رہے ہیں،، مثلًا:گوجر، گجر، اور گرجارا وغیرہ۔عرب مورخین نے اس قوم کو،، الجزر،، لکھا ہے۔گوجری زبان کا تذکرہ گوجر قوم کی تاریخ کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔(راقم کے نزدیک زبان کے لیے،، گوجری،، قبیلہ معنوں میں،، گُجر،، درست املا ہے۔زبان کے لیے ،،گُجری،،  کا املا درست نہیں کیونکہ یہ گُجر کی تانیث ہے۔)
لسانی اشتراک اور روابط کے اعتبار سے معلوم ہوتا ہے کہ پنجابی اور گوجری کا ماخذ ایک ہی ہے۔اگر ماہرین کے اس نظریہ سے کہ پبجابی پالی کی شاخ پشاجی اپ  بھرنش سے نکلی ہے، اختلاف کیا جائے تو یقینًا پنجابی اور گوجری کا ماخذ ایک ہی اپ بھرنش ٹھرے گی۔اس قربت اور لسانی اشتراک کی وجہ سے کچھ ماہرین کو یہ غلط فہمی ہو گئی کی گوجری پنجابی کی ایک بولی یا علاقائی لہجہ ہے۔حالانکہ آغاز و ارتقا اور لسانی جغرافیے کے لحاظ سے دونوں زبانیں الگ الگ ہیں، ان کا اپنا مزاج اور ثقافتی و ملکانی کینوس ہے۔لیکن اس سے انکار نہیں کہ دونوں زبانیں آپس میں گہرا لسانی اشتراک رکھتی ہیں۔گریرسن، سینتی کمار چٹرجی، ڈاکٹر محی الدین قادری زور، ڈاکٹر مسعود حسین خان، ڈاکٹر شوکت سبزواری اور پروفیسر اے ایم گھٹا کے سب نے ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہوئے جدید ہند آریائی زبانوں کی گروہ بندی کی ہے۔لیکن ان سب نے پنجابی، گوجری اور راجستھانی کو ایک ہی زمرے میں رکھا ہے۔اس کے باوجود ان لوگوں سے قطعی اتفاق نہیں کیا جا سکتا جو گوجری کو پنجابی کی بولی یا لہجہ قرار دیتے ہیں۔پنجابی کا لسانی جغرافیہ ایک ہی ہے یعنی یہ باہم متصل علاقوں میں بولی جاتی ہے۔گوجری اس لحاظ سے بہت منفرد زبان ہے کہ یہ ایک ہی علاقے میں مقید نہیں بلکہ جہاں بھی گُجر ہیں وہاں یہ زبان بولی جاتی ہے، مثلاً:سوات اور پونچھ میں جغرافیائی اتصال نہیں۔اس طرح چترال اور جموں کتنا مکانی بُعد ہے ۔افغانستان اور راجستھان میں کتنا جغرافیائی فرق اور فاصلہ ہے۔اگر گوجری پنجابی کی بولی ہے تو پھر یہ اتنے دور دراز اور مختلف علاقوں میں بغیر کسی جغرافیائی اتصال کے اپنے اصل ثقافتی رنگ اور لسانی مزاج کے ساتھ کیوں بولی جاتی ہے ۔پھر جس دور میں پنجابی کا آغاز ہو رہا تھا اور ماہرین ایک طرف مسعود سعد سلمان کے کلام کو اردو کا ابتدائی روپ کہتے ہیں اور دوسری طرف پنجابی والے اسے پنجابی کا قدیم ترین رنگ قرار دیتے ہیں ۔اس دور میں گوجری گجرات تو گجرات خود دلًی میں بلکل آج کی زبان کی طرح بولی جاتی تھی۔امیر خسرو نے دودھ دہی بیچنے والی گجررانیوں کی گوجری زبان اپنے فارسی اشعار میں نقل کی ہے جو بکل آج کی گوجری زبان ہے۔
گجری توں کہ در حسن و لطافت چو مہی
آں دیگ دہی بر سر تو چتر شہی
از ہر دو لبت قند و شکر
میر یزد ہر گاہ کہ،، دہی لیا دہی لیو،،
اتنی قدیم زبان کو پنجابی لہجہ یا بولی قرار دینا معلوم نہیں کس لسانی مغالطے کا نتیجہ ہے۔
جہاں تک گوجری اور اردو کے لسانی اشتراک کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں اردو ادب اور زبان کے مورخین بھی دبے لفظوں میں کہ چکے ہیں کہ اردو گوجری کا ایک ترقی یافتہ مفرس و معرب روپ ہے۔
چوہدری اشرف ایڈووکیٹ بے،، اردو کی خالق :گوجری زبان،، میں اسی(80)سے زائد مغربی اور مشرقی ماہرین لسانیات کی تحقیقی کتب کے حوالوں کے ساتھ یہ بات ثابت کی ہے کہ اردو گوجری کی بیٹی ہے۔راجستھانی، مارواڑی اور میواتی گوجری کے مختلف روپ ہیں اور علاقائی ناموں سے مشہور ہیں۔
گجرات میں گوجری زبان کو سرکاری سرپرستی اور اس دور کے عظیم قلم کاروں نے عروج پر پہنچایا ۔گوجری میں صوفیا نے اپنے پیغام کو عام لوگوں تک پہنچایا۔اس دور کے اہم شعراء اور ادبا میں سید نوردین محمد عرف ست گرو(1094ء) شیخ عبدالقدوس گنگوہی(945ھ) شاہ برہان الدین جانم(1576ء) شیخ محمد امین، شیخ خوب محمد چشتی اور مظفر خان شامل ہیں۔ڈاکٹر جمیل جالبی کے بقول گجرات میں خالص دیسی ادبی روایت پروان چڑھی۔یہاں سنسکرت اور عربی و فارسی کی ادبی روایات سے ہٹ کر خالصتًا اپنی دیسی روایت کو فروغ دیا گیا۔گوجری کے مندرجہ بالا جن شعراء و ادبا کا ذکر ہو ہے انھوں نے اپنے اپنے کلام میں اپنی زبان کو گوجری قرار دیا ہے۔اردو ادب کے کچھ مورخین کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ گوجری اردو ہی کا گجرات کی نسبت علاقائی نام ہے۔اگر ان کی یہ بات مان لی جائے تو پھر دکن والے اپنی زبان کو گجری کیوں کہتے ہیں۔مگر حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کے اکثر علاقوں میں اس وقت گوجری بولی جاتی تھی۔اس لیے لسانی شعور والے قلم کار اسے گوجری ہی کہتے تھے قطع نظر اس کے کہ وہ کس علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
جنوبی ہند اور گجرات میں گوجری کلچر عروج کے بعد روبہ زوال تھا جب مغل بادشاہ اکبر نے 1572ء میں گجرات پر حملہ کیا۔اس لئیے کچھ زیادہ مزاحمت نہ ہوئی اس طرح گجرات مغل ہند کا حصہ بن گیا۔چونکہ اقتدار گجر قوم سے چھینا گیا تھا۔اس لئیے مغل بادشاہ کے بدترین انتقام کا نشانہ بننے والی قوم بھی یہی تھی۔انسانی تاریخ شاید ہے کہ فاتح مفتوح کی ہر نشانی مٹا دیتا ہے۔یہی انسانی نفسیات گجرات میں بھی متحرک ہوئی اور اکبر نے گُجر قوم، گوجری زبان اور گوجری کلچر سب کچھ مٹا دیا، یا کم از کم صدیوں پیچھے دھکیل دیا۔گجر قوم پر یہ عہد، عہدِ ستم ٹھرا۔لوگ بھاگ کر برصغیر کے مختلف علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔گوجری پر فارسی کو مسلط کر دیا گیا۔عربی فارسی ادبی مزاج کے پیچھے چونکہ ایک بدمست شہنشاہ تھا اس لیئےاسے بہت جلد فروغ حاصل ہوا۔
اس دور میں گوجری جاننے والوں کی وہی حثیت رہ گئی تھی جو انگریزوں کے دور میں صرف اردو جاننے والوں کی تھی۔گوجری لکھنے والے اکثر دکن میں ہجرت کر گئے۔فارسی عربی زبان اور گجرات کی گوجری کے اس ملاپ سے گوجری زبان کے تحریری اور درباری لہجے اور مزاج میں ایک نیا رنگ آیا۔یہاں سے لکھی اور دربار میں بولی جانے والی گوجری اور گجرات کے عوام اور ہجرت کر جانے والے لوگوں کی زبان میں خاصا فرق آ گیا۔جو لوگ گجرات سے دکن یا ہمالیہ کے پہاڑوں کی طرف ہجرت کر گئے وہ وہی قدیم خالص دیسی گوجری بولنے لگے لیکن خود گجرات کے اندر مغلیہ کلچر کے زیر اثر لکھی جانے والی زبان یا دربار میں بولی جانے والی زبان پہلی گوجری سے مختلف ہوتی گئی اور اس میں فارسی و عربی کا لسانی مزاج اور ادبی روایات شامل ہو گئیں۔قلم و قرطاس اور دربار کی یہ زبان دھل نکھر کر آنے والے دور میں،، اردو،، کہلائی جبکہ گجرات کی وہ پرانی گوجری وہاں سے انتقام کے ڈر سے بھاگ جانے والے لوگوں کے پاس موجود رہی ۔یہ لوگ زیادہ تر ہماچل پردیس، جمعوں کشمیر، شمال مغربی سرحدی صوبہ(موجودہ، خیبر پختوں خواہ) اور گجرات سے متصل دوسرے علاقوں میں چلے گئے۔یہ لوگ اپنی زبان اور ثقافت بچانے کے لیے اور اکبر کے ظلم سے بچنے کے لیے مذکورہ علاقوں میں آگئے لیکن ان کی زبان تحریر سے محروم ہو گئی۔یعنی لسانی خلا کا تصور تو نہیں کیا جا سکتا مگر گوجری سقوطِ گجرات کے بعد بیسویں صدی کے آغاز تک قلم و قرطاس سے نا آشنا رہی۔گوجری ان صدیوں میں فقط بولی جانے والی زبان رہی۔اس کا ادب لوک ادب تک ہی محدود رہا اور سینہ بہ سینہ چلتا رہا۔گویا گوجری پہاڑوں اور جنگلوں میں پھرتی رہی۔اور اسکے پہلو سے نکلنے والی اردو دربار اور پختہ تخلیقی اظہار کی زبان بن گئی۔اکبر کے گجرات پر حملے کے بعد جو لوگ دکن وغیرہ گئے یا جو گجر پنجاب میں بس گئے وہ آہسہ آہستہ گوجری زبان سے محروم ہوتے گئے اور وہاں کی زبان ہی اختیار کرتے گئے۔یہی وجہ ہے کہ دکن یا پنجاب کے گُجر اب گوجری نہیں بولتے۔ان لوگوں نے ان علاقوں کے ماحول اور ثقافت سے خاموش سمجھوتہ کر لیا اور وہاں کا کلچر اختیار کر لیا۔کچھ لوگوں نے انتقام سے بچنے کے لیے اپنی شناخت بھی چھپانا شروع کی۔
1857ء کے بعد خود مغل بھی اسی الم سے گزرے جب انگریزوں نے انہیں چن چن کر قتل کیا۔مغلوں نے فرنگی انتقام سے بچنے کے لیے خود کو مغل کہلانا چھوڑ دیا تھا۔شاید تاریخ نے اپنے آپ کا دہرایا ہو۔گجروں کے بارے میں ایسے نفسیاتی حربوں سے کام لیا گیا کہ خود گُجر اپنی زبان، ثقافت اورتاریخ کو بے یقینی سے دیکھنے لگے۔انہیں سخت احساسِ کمتری میں مبتلا کر کے، ان کے بارے میں گمراہ کن خیالات پھیلا کراپنی عظمت سے بے گانہ کر دیا تھا۔مگر لاشعور میں عظمتِ رفتہ کے نقوش محفوظ تھے جنہیں شعور زمانے کی سختیوں کے پیش نظر بار بار لاشعور کی خواب گاہوں میں دھکیل دیا تھا۔ان حالات میں جو گُجر اپنی زبان و ثقافت پر کوئی سمجھوتہ نہ کر سکے۔وہ اس کو بچانے کے لیے بلند پہاڑوں پر چلے گئے۔یہاں گجروں کے تین گروہ بن گئے۔جن لوگوں نے زمینداری شروع کر دی اور ایک ہی جگہ رہنے لگے وہ بسنیک(مقیم) گُجر کہلائے۔جو گائے بھینس پالنے لگے اور دودھ بیچنے لگے وہ بنیہارے(دودھی) گُجر کہلائے۔جن لوگوں نے بکریاں پالنا شروع کیں اور خانہ بدوش طرز زیست اختیار کی، انہیں بکروال گُجر کہتے ہیں۔لیکن ان تینوں گروہوں کی گوتوں اور زبان میں کوئی فرق نہیں۔سماجی سطح پر بھی لباس اور رہنے سہنے کا جو فرق ان تینوں گروہوں میں پایا جاتا ہے، وہ معاشی اور جغرافیائی اعتبار سے ہے، مجموعی گُجر ثقافت کا فرق نہیں۔البتہ سیاسی اور معاشی اعتبار سے زمیندار گُجر چونکہ زیادہ مضبوط ہیں۔اس لیے دوسرے گروہوں خصوصاً بکروال طبقے سے رشتہ داری وغیرہ کو قطعاً اچھا نہیں سمجھتے۔کیا بکروال سماجی حثیت میں مسلم شُودر ہیں؟
اکبر کی طرح انگریزوں کے عہد میں بھی گُجر ظلم و ستم کا نشانہ بنتے رہے۔ان کی قومی روایات، ثقافت اور زبان کو کم تر ثابت کرنے کے لیے ریاستی وسائل استعمال ہوتے رہے۔بڑے پیمانے پر گُجروں کو اپنے اور اپنی زبان و ثقافت کے بارے میں اِحساسِ کم تری میں مبتلا کرنے کے لیے نفسیاتی حربے استعمال کیے جاتے رہے۔یہی وجہ ہے کہ برصغیر کی تاریخ اور زبانوں کے بیان میں گُجر اور گوجری کو نہ صرف نظر انداز کیا گیا بلکہ ان کی تاریخ اور حقائق کو دھندلانے اور مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔اردو ادب کی یا دیگر زبانوں کے ادبیات و لسانیات کی بات آئی تو گوجری کا ذکر نہ ہوا۔یہ تو کچھ دیانت دار اور غیر جانب دار مستشرقین تھے جنہوں نے برصغیر کے وسیع جغرافیے پر پھیلے ہوئے گُجر کلچر اور زبان کے حقائق اپنی تحقیقی کتب میں محفوظ کیے۔اس کے بعد رفتہ رفتہ حالات بدلتے گئے یہاں تک کہ، 1947ء کو غلامی کی طویل سیاہ رات آزادی کے پرنور سویرے میں بدل گئی۔
سولہویں صدی عیسوی سے لے کر بیسویں صدی کے پہلے ربع تک گوجری احاطہ تحریر میں نہ آئی یا کم از کم اس کا کوئی ثبوت ہمارے پاس نہیں ہے۔تقسیمِ ہند کے بعد جدید گوجری ادب کا دور شروع ہوتا ہے۔اردو، پنجابی اور خود گوجری کی اپنی مختلف اصناف میں لوگوں نے لکھنا شروع کیا۔موجودہ دور میں گوجری کشمیر کے دونوں حصوں، سوات، کاغان، چترال، دیر، ھزارہ اور افغانستان کے علاوہ بھارت کے مختلف علاقوں میں بولی جاتی۔لہجے کے فرق کے ساتھ یہی زبان وسط ایشیا کی ریاستوں، نیپال اور چین کے صوبہ سنکیانگ میں بھی بولی جاتی ہے۔جس رفتار سے شاعری، نثر اور تحقیق کے حوالے سے لوگ انفرادی طور پر کام کر رہے ہیں اور مختلف علاقوں میں گوجری کے فروغ کے لیے ادارے قائم کیے گئے ہیں، اس کے پیشِ نظر گوجری کا مستقبل روشن نظر آتا ہے، ان شاءاللہ، گوجری کے بارے میں انہی خیالات کو معروف شاعر اسرائیل مہجور نے اشعار میں سمویا ہے ۔

لگے مِٹھا کی تھوڑ نہ کدی اس ناں
جس کی زمی ماں ہوئے کماد پیدا
شابا کہیے جیہا درخت نا تاں
جس کا پھل ماں ہوئے سواد پیدا
چنگی ہوئے نہ جد تک ماں کوئے
پُتر ہوئے نہ نیک نہاد پیدا
مِٹھی گوجری جیہی زبان کِہڑی
اردو ہوئی اس کی اولاد پیدا۔

فی زمانہ گوجری زبان کے تین المیے ہیں: ایک یہ کہ یہ زبان کسی ایک علاقے کی مکمل لنگوافرینکا نہیں بلکہ مختلف علاقوں میں جزوی طور پر بولی جاتی ہے۔اس لیے اس کی پہچان کسی جغرافیائی خطے کے بجائے قبیلے کے حوالے سے ہے۔دوسرا المیہ یہ ہے کہ اس کا ذکر گُجر قوم کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا جبکہ یہی بات بعض نازک طبائع پر گراں گزرتی ہے اور گوجری کا ذکر قبیلائی تعصب کا مترادف بن جاتا ہے۔تیسرا المیہ: یہ ہے کہ عام لوگوں کی اکثریت گوجری کو گجروں کے محض ایک ہی طبقے یعنی بکروالوں کی زبان سمجھتا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ گوجری زبان کو اسی طبقے نے زندہ رکھا ہے۔ناخواندہ ہونے کی وجہ سے خالص گوجری کے نمونوں کے لیے آج کا محقق اسی طبقے سے رجوع کرتا ہے۔لیکن ساری زبان کو ان تک محدود کرنا بڑی غلط فہمی ہے ۔مندرجہ بالا سطور میں گوجری کے آغاز و ارتقا کے متعلق جو کچھ میں نے لگھا اس سے اہل علم حضرات اور ماہرین لسانیات کو اختلاف کرنے کا پورا حق ہے ۔صحت مند تنقید اور علمی اختلاف ہی سے تو نئے گوشے سامنے آتے ہیں۔ابہام اور غلطیوں سے بچا جا سکتا ہے۔تاہم نکتہ چینی کے لیے مندرجہ ذیل کتابیات کی خوشہ چینی ضروری ہے۔

کتابیات،
1-ڈاکٹر جمیل جالبی۔تاریخ ادب اردو، جلد اول و دوم۔
2- اشرف ایڈووکیٹ۔اردو کی خالق گوجری زبان۔
3- رانا غلام سرور،بابائے گوجری، گوجری ادبی سنگیت۔
4- عبدالحق سیالکوٹی۔تارخ گوجراں۔
5- عبدالمجید سندھی، ڈاکٹر میمن۔لسانیات پاکستان۔
6- حافظ محمود شیرانی، پنجاب میں اردو، حصہ اول
7-پنجابی، پہاڑی، گوجری، زبان و ادب، کورس برائے ایم فل۔پاکستانی زبانیں و ادب، AIOU..
8- ماہنامہ قومی زبان، کراچی، جولائی 2002.
9- ماہنامہ قومی زبان کراچی۔جولائی، 2004.
10. calvin R, Rensch(and othres) sociolinguistic servey of nothern pakistan vol, 3,hindko and gojri, Quaid e Azam university Islamabad.

کتاب: گوجری کے ادبی و لسانی مطالعے
مصنف: پروفیسر محمد نذیر مسکین۔
انتخاب: محمد بشیر کھٹانہ