بدھ، 11 مارچ، 2020

گوجری طرزِتحریر، عبدالرشید چوہدری

عبدالرشیدچوہدری، گوجری لکھاری

گوجری طرزِتحریر، عبدالرشید چوہدری

پنجابی ،پہاڑی، سرائیکی اور برِصغیرمیں بولی جانے والی کئی زبانوں کا کوئی اپنا رسم الخط یا طرزِتحریر نہیں ہے مجبوراً ان زبانوں نے عربی رسم الخظ کو اپنایا ہے جس سے کسی حدتک ان زبانوں کی ضروریات کو پوراکیا ہے مگردرجنوں الفاظ ایسے رہ جاتے ہیں جن کو عربی رسم الخط میں ہوبہواصلی تلفظ کے ساتھ نہیں لکھا جاسکتا۔ اس لئے کوشش ہونی چاہئے کہ اصل تلفظ سے قریب ترکو ترجیع دی جائے۔یہاں ایسے چند الفاظ کی نشاندہی کی جاتی ہے اور وضع شدہ طریقہ کو بھی پیش کیا جاتا ہے تاکہ گوجری لکھنے والوں کی راہنمائی کی جاسکے۔مثلاً پنجابی زبان میں بیٹی کو(دِھی ) کہاجاتاہے۔چونکہ یہ لفظ اپنی اصلی صوتی حالت میں (ت)سے نہیںلکھاجا سکتا لہذا’ت‘ کو دال سے بدل کر (دِھی)لکھا جاتا ہے۔اسی طرح گھوڑے کو(کہوڑا)نہیں بلکہ گھوڑا ہی لکھا جاتا ہے۔ بہن کو (پہینڑ) نہیں بلکہ بہن ہی لکھا جاتا ہے۔مثال کے لئے(سیف الملوک اور گلزاریوسف دیکھیں) سب سے بڑا مسلمہ گوجری زبان میںاڑنون [ن کے ساتھ ڑ]کے نہ ہونے کا ہے ۔اس لئے ہم پانی کو(پانڑیں) نہیں بلکہ پانی لکھنے پر مجبور ہیں۔یہاں’ڑ‘ کو(ن) سے بدلاجاتاہے) اور اسی طرح کے درجنوں حروف ہیں۔کانڑو، کھانڑو، نہانڑو، بعض جہ ب بھ یا پ میں بدل جاتی ہے جیسے پہائی(بھائی) اور کہیں دبھی ت میں تبدیل ہوتی ہے جیسے دھوبی(تہوبی)۔جن لوگوں کالکھنے پڑھنے سے متواتر سابقہ رہتا ہے وہ تو لکھنے دال اور پڑھتے ت ہیں جیسے دھرتی(تہرتی) مگر کسی کو اس طرح پڑھنے پر مجبور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

چونکہ گوجری زبان کا اپنا کوئی رسم الخط نہیں لہذا یہ پنجابی اور دیگرمقامی زبانوں کی طرح عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اورگوجری لکھنے کے لئے بھی وہی دشواریاں سامنے آرہی ہیں جو دوسری مقامی زبانوں کو درپیش ہیں۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لئے کافی عرصہ پہلے جموںکشمیراورضلع ہزارہ کے گوجری اہل علم ودانش نے پنجابی طرزِ تحریرکو اپنانے کو فیصلہ کیا تھا اورگذشتہ نصف صدی سے طرزتحریرکو ہی اختیار کئے ہوئے ہیںجس کی وجہ سے گوجری زبان میں لکھنا پڑھناقدرے آسان ہوگیاہے مگر الفاظ کی اس اصلی صورت میں ادائیگی کا کام ہنوزباقی ہے۔یہ طریقہ اگرچہ تھوڑی سی آسانی پیدا کرتا ہے مگرزبان کی حقیقی روح کو بھی فنا اور لفظ کی چاشنی کو بھی ختم کردیتا ہے۔ ہم پانی لکھ کر کسی کو پانڑی پڑھنے پر مجبور نہیں کرسکتے نہ بھائی لکھ کر پہائی پڑھایا جاسکتا ہے ۔برصغیرکے مشہور ادیب و شاعراور دورِ جدیدکے اکثر شعراءاور ادیب اسی طرزِ تحریرکو اپنائے ہوئے ہیں۔گوجری زبان میں لکھنے والوں کی اچھی خاصی تعدادکی رائے ہے کہ الفاظ کو اُن کی حقیقی اور صوتی صورت میں ہی لکھا جانا چاہیے۔دل تو ہمارا بھی یہی چاہتا ہے مگرکیا کیا جائے[اردو کے اسی لفظ پر غورہو)۔ہوسکتاہے آگے چل کر گوجری لکھنے کا کوئی کلیہ قاعدہ ایجاد ہونے سے یہ مشکل حل ہوجائے۔کیونکہ ہمارے پاس اپنی خودساختہ مجوزہ طرزتحریرکا سوائے چنداکابرین کی رائے کے کوئی ثبوت موجود نہیں لہذا طرزتحریرکے اختلاف کو لڑائی جھگڑے کی وجہ نہ بنایاجائے۔اختلافِ رائے کوئی بری چیز نہیں یہ انسانی جبلت میں شامل ہے جسے تسلیم کرلینا چاہئے۔میرا مقصدکسی دوسرے کی طرزتحریر کو رد کرنا نہیں ۔میں صرف اسی چیز پر زور دیتاہوں کہ گوجری میں لکھی گئی تحریرکم سے کم مشکل سے پڑھی جاسکے۔ مقبوضہ جموں کشمیرکے ریڈیواور ٹی وی کے علاوہ جموں اینڈکشمیرایکڈیمی اور کلچر اور لنگوجیز سے شائع ہونے والے لٹریچرکی بھی یہی طرزِ تحریرہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں اصلاح کی گنجائش نہیںاصلاح اور بہتری کے لئے سارے درکھلے رہنا چاہیںاورجوبھی قابل عمل بات سامنے آئے اسے اپنانے میں کیا حرج ہے۔

الحمدللہ بزمِ گوجری کے قیام کے بعد گوجری لکھنے والوں کی فہرست میں اضافہ ہورہا ہے اس کے علاوہ فیس بُک پر بھی شاعراپنا کلام نتھی کر رہے ہیںمشاہدے میں آیا ہے کہ ہرشاعر اور ادیب نے اپنی منفرد اور جداگانہ طرزتحریر اپنائی ہوئی ہے۔جس کی وجہ سے عام قاری ان کے کلام سے بھرپور استفادہ نہیں کرسکتااور خوبصورت کلام کو من پسندطرزِتحریرمیں لکھ کر کلام کے مزے کو کرکراکردیاجاتاہے جس کی وجہ سے بے وزنی کی صورتحال بھی پیدا ہوجاتی ہے۔

یہاںمیں نمونہِ کلام اور شعراءکے نام نہ ظاہرکرتے ہوئے گزارش کرتاہوں کہ بہتر یہی ہے کہ ہم سب اسی متفقہ اور مروجہ گوجری طرزتحریر کو اپناہیں۔ہمارا دعویٰ ہے کہ گوجری زبان اردو کی ماں ہے اردو کے اکثرالفاظ گوجری کے ہی ہیںلہذا اردو سے قریب تر ہوکر لکھنے سے زبان کو پڑھنے میں مشکل نہ آئے گئی۔ مثلاً گھوڑا، اردو زبان کا لفظ ہے بکروال قبائل اسے گھوڑا ہی بولتے ہیں اسے (کہوڑا) لکھنے سے دوسرے پڑھنے والا اسے کیا کیا پڑھے گا۔ اسی طرح بہن کو(پہنڑ) یا پانی کو(پانڑی) کہانی کو(کہانڑی) دِھی کو(تہی) دھرنے کو(تہرنا) کھانے کو(کھانڑو)اور دھرتی کو(تہرتی)لکھنے سے مشکلات پیدا ہوںگی۔بہت سارے الفاظ مجوزہ طرزِتحریر میں لکھنے سے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں مثلاً جھوٹی[جوان بھینس] کو چہوٹی ہی لکھنا مناسب ہے۔انپڑھ ہونے کی بنا پر عام لوگ گوجری کے سینکڑوں الفاظ غلط تلفظ کے ساتھ ادا کرتے چلے آئے ہیںان غلط الفاظ کو اصلی گوجری کے الفاظ گرداننا ٹھیک نہیں ہے۔جیسے راجو کو رایو،کھوجے کو کھویو اس کی بجائے ٹھیک اور اصل الفاظ کی ادائیگی ہی زبان کی خوبصورتی ہے۔اردو کی طرح گوجری زبان بھی باقی زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر سمولینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔جس طرح عربی فارسی انگریزی زبانوں کے پرانے الفاظ وقت کے ساتھ ساتھ متروک ہوتے جاتے ہیں اسی طرح گوجری کے غیرمستعمل الفاظ اپنی فادیت کھوجانے سے متروک ہوجاتے ہیں اُن کی جگہ نئے الفاظ لے لیتے ہیں۔ہمارے کلچر کے ساتھ جُڑی بہت سی چیزیں اب ختم ہو چکی ہیں جیسے ترام چُوڑ، چرکھو، تکوو، پٹو نیتو،کٹھاری، اوگ وغیرہ اسی طرح پرانے بوڑھوں کی گوجری زبان کے خالص گوجرے الفاظ بھی اب ناپیدہوچکے ہیں۔سچی بات تو یہی ہے کہ گوجری بولنے کا اصل مزہ تو ان ہی الفاظ اوراُسی ادئیگی میں تھا۔مگر کیا کیا جائے ہم نے آگے کی طرف بڑھنا ہے جس کی خاطر آگے نئے الفاظ نئی تعذیت کلچر اور ضرورتیں ہیں جن کے بغیرگزارہ ممکن نہیں ہے۔


5 تبصرے:

  1. وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

    جواب دیںحذف کریں
  2. گوجری زبان وادب دے بارے ایہ بڑی معلوماتی سائٹ اے۔جو کتاباں جموں کشمیر وچ گوجری نصاب تے دوجے موضوعات بارے چھپ چکیاں نیں کیہ اوہ کتاباں پاکستان وچ مل سکدیاں نیں؟ ڈاکٹر محمد ریاض شاہد سابق چئیرمین شعبہ پنجابی زبان و ادب جی سی یونیورسٹی فیصل آباد ۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
    آپ نے بلاگ پسند کیا بہت بہت شکریہ، دوسرا آپ نے پوچھا کہ "جو کتاباں جموں کشمیر وچ گوجری نصاب تے دوجے موضوعات بارے چھپ چکیاں نیں کیہ اوہ کتاباں پاکستان وچ مل سکدیاں نیں؟"
    ڈاکٹر محمد ریاض شاہد سابق چئیرمین شعبہ پنجابی زبان و ادب جی سی یونیورسٹی فیصل آباد

    ڈاکٹر صاحب پاکستان میں یہ کتابیں نایاب ہیں ہارڈ کاپی بہت مشکل ہے کہ دستیاب ہو لیکن پی ڈی ایف فارمیٹ میں سکین شدہ زیادہ تر کتابیں میں نے اپ لوڈ کی ہیں بلاگ پر آپ یہاں ان سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

    ابرار حسین گوجر
    03015030261

    جواب دیںحذف کریں

بہت مہربانڑیں کہ توؤں بلاگ وزٹ کیو اے ہوں امید کروں توؤں اپنڑیں رائے غو اظہار وی کرو غا تاکہ ہم اس گوجری بلاگ ناں مزید بہتر تیں بہتر کر سکاں۔