 |
محمد بشیر کھٹانہ |
گوجری:ایک تعارف
انتخاب: محمد بشیر کھٹانہ
گوجری ہند آریائی زبان ہے۔سنسکرت کی سخت لسانی پالیسی یعنی برہمنوں
کے ہاں مقید ہونے کی وجہ سے عوامی بولیاں سنسکرت سے رفتہ رفتہ الگ ہو گئیں۔ان کو پراکرت
کہا جاتا ہے۔ان کا دور، 500 ق م سے 700ء کے لگ بھگ ہے۔یہ پراکرتیں اپنے بعد کے دور
میں اپ بھرنش کہلائیں۔مختلف علاقوں کی اپ بھرنشوں کے نام بھی مختلف ہوتے گئے۔ان میں
سب سے بڑی اپ بھرنش شورسینی تھی۔اسکی حدیں دوسری اپ بھرنشوں سے ملتی تھیں۔اس نے دوسری
اپ بھرنشوں کو بھی ایک دوسرے کے قریب کر دیا۔700 سے 1000ء کے درمیان غالباً شورسینی
اپ بھرنش ہی برصغیر کی لنگوافرینکا تھی۔چونکہ ہندوستان کی ریاستیں مختلف حکمرانوں اور
قبائل کے زیرنگیں تھیں۔اس لیئے ان مختلف علاقوں یا ریاستوں میں بولی جانے والی اپ بھرنشائیں
اور ان کے لہجے بھی مختلف ناموں سے پکارے جانے لگے۔ہندوستان کے جن علاقوں(خصوصاً گجرات)
پر گُجر حکمران تھے وہاں کی اب بھرنش گوجری کہلائی۔اس قوم کیلئے تاریخ عالم میں مختلف
نام استعمال ہوتے رہے ہیں،، مثلًا:گوجر، گجر، اور گرجارا وغیرہ۔عرب مورخین نے اس قوم
کو،، الجزر،، لکھا ہے۔گوجری زبان کا تذکرہ گوجر قوم کی تاریخ کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں
ہو سکتا۔(راقم کے نزدیک زبان کے لیے،، گوجری،، قبیلہ معنوں میں،، گُجر،، درست املا
ہے۔زبان کے لیے ،،گُجری،، کا املا درست نہیں
کیونکہ یہ گُجر کی تانیث ہے۔)
لسانی اشتراک اور روابط کے اعتبار سے معلوم ہوتا ہے کہ پنجابی
اور گوجری کا ماخذ ایک ہی ہے۔اگر ماہرین کے اس نظریہ سے کہ پبجابی پالی کی شاخ پشاجی
اپ بھرنش سے نکلی ہے، اختلاف کیا جائے تو یقینًا
پنجابی اور گوجری کا ماخذ ایک ہی اپ بھرنش ٹھرے گی۔اس قربت اور لسانی اشتراک کی وجہ
سے کچھ ماہرین کو یہ غلط فہمی ہو گئی کی گوجری پنجابی کی ایک بولی یا علاقائی لہجہ
ہے۔حالانکہ آغاز و ارتقا اور لسانی جغرافیے کے لحاظ سے دونوں زبانیں الگ الگ ہیں، ان
کا اپنا مزاج اور ثقافتی و ملکانی کینوس ہے۔لیکن اس سے انکار نہیں کہ دونوں زبانیں
آپس میں گہرا لسانی اشتراک رکھتی ہیں۔گریرسن، سینتی کمار چٹرجی، ڈاکٹر محی الدین قادری
زور، ڈاکٹر مسعود حسین خان، ڈاکٹر شوکت سبزواری اور پروفیسر اے ایم گھٹا کے سب نے ایک
دوسرے سے اختلاف کرتے ہوئے جدید ہند آریائی زبانوں کی گروہ بندی کی ہے۔لیکن ان سب نے
پنجابی، گوجری اور راجستھانی کو ایک ہی زمرے میں رکھا ہے۔اس کے باوجود ان لوگوں سے
قطعی اتفاق نہیں کیا جا سکتا جو گوجری کو پنجابی کی بولی یا لہجہ قرار دیتے ہیں۔پنجابی
کا لسانی جغرافیہ ایک ہی ہے یعنی یہ باہم متصل علاقوں میں بولی جاتی ہے۔گوجری اس لحاظ
سے بہت منفرد زبان ہے کہ یہ ایک ہی علاقے میں مقید نہیں بلکہ جہاں بھی گُجر ہیں وہاں
یہ زبان بولی جاتی ہے، مثلاً:سوات اور پونچھ میں جغرافیائی اتصال نہیں۔اس طرح چترال
اور جموں کتنا مکانی بُعد ہے ۔افغانستان اور راجستھان میں کتنا جغرافیائی فرق اور فاصلہ
ہے۔اگر گوجری پنجابی کی بولی ہے تو پھر یہ اتنے دور دراز اور مختلف علاقوں میں بغیر
کسی جغرافیائی اتصال کے اپنے اصل ثقافتی رنگ اور لسانی مزاج کے ساتھ کیوں بولی جاتی
ہے ۔پھر جس دور میں پنجابی کا آغاز ہو رہا تھا اور ماہرین ایک طرف مسعود سعد سلمان
کے کلام کو اردو کا ابتدائی روپ کہتے ہیں اور دوسری طرف پنجابی والے اسے پنجابی کا
قدیم ترین رنگ قرار دیتے ہیں ۔اس دور میں گوجری گجرات تو گجرات خود دلًی میں بلکل آج
کی زبان کی طرح بولی جاتی تھی۔امیر خسرو نے دودھ دہی بیچنے والی گجررانیوں کی گوجری
زبان اپنے فارسی اشعار میں نقل کی ہے جو بکل آج کی گوجری زبان ہے۔
گجری توں کہ در حسن و لطافت چو مہی
آں دیگ دہی بر سر تو چتر شہی
از ہر دو لبت قند و شکر
میر یزد ہر گاہ کہ،، دہی لیا دہی لیو،،
اتنی قدیم زبان کو پنجابی لہجہ یا بولی قرار دینا معلوم نہیں
کس لسانی مغالطے کا نتیجہ ہے۔
جہاں تک گوجری اور اردو کے لسانی اشتراک کا تعلق ہے تو اس سلسلے
میں اردو ادب اور زبان کے مورخین بھی دبے لفظوں میں کہ چکے ہیں کہ اردو گوجری کا ایک
ترقی یافتہ مفرس و معرب روپ ہے۔
چوہدری اشرف ایڈووکیٹ بے،، اردو کی خالق :گوجری زبان،، میں اسی(80)سے
زائد مغربی اور مشرقی ماہرین لسانیات کی تحقیقی کتب کے حوالوں کے ساتھ یہ بات ثابت
کی ہے کہ اردو گوجری کی بیٹی ہے۔راجستھانی، مارواڑی اور میواتی گوجری کے مختلف روپ
ہیں اور علاقائی ناموں سے مشہور ہیں۔
گجرات میں گوجری زبان کو سرکاری سرپرستی اور اس دور کے عظیم
قلم کاروں نے عروج پر پہنچایا ۔گوجری میں صوفیا نے اپنے پیغام کو عام لوگوں تک پہنچایا۔اس
دور کے اہم شعراء اور ادبا میں سید نوردین محمد عرف ست گرو(1094ء) شیخ عبدالقدوس گنگوہی(945ھ)
شاہ برہان الدین جانم(1576ء) شیخ محمد امین، شیخ خوب محمد چشتی اور مظفر خان شامل ہیں۔ڈاکٹر
جمیل جالبی کے بقول گجرات میں خالص دیسی ادبی روایت پروان چڑھی۔یہاں سنسکرت اور عربی
و فارسی کی ادبی روایات سے ہٹ کر خالصتًا اپنی دیسی روایت کو فروغ دیا گیا۔گوجری کے
مندرجہ بالا جن شعراء و ادبا کا ذکر ہو ہے انھوں نے اپنے اپنے کلام میں اپنی زبان کو
گوجری قرار دیا ہے۔اردو ادب کے کچھ مورخین کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ گوجری اردو ہی
کا گجرات کی نسبت علاقائی نام ہے۔اگر ان کی یہ بات مان لی جائے تو پھر دکن والے اپنی
زبان کو گجری کیوں کہتے ہیں۔مگر حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کے اکثر علاقوں میں اس وقت
گوجری بولی جاتی تھی۔اس لیے لسانی شعور والے قلم کار اسے گوجری ہی کہتے تھے قطع نظر
اس کے کہ وہ کس علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
جنوبی ہند اور گجرات میں گوجری کلچر عروج کے بعد روبہ زوال تھا
جب مغل بادشاہ اکبر نے 1572ء میں گجرات پر حملہ کیا۔اس لئیے کچھ زیادہ مزاحمت نہ ہوئی
اس طرح گجرات مغل ہند کا حصہ بن گیا۔چونکہ اقتدار گجر قوم سے چھینا گیا تھا۔اس لئیے
مغل بادشاہ کے بدترین انتقام کا نشانہ بننے والی قوم بھی یہی تھی۔انسانی تاریخ شاید
ہے کہ فاتح مفتوح کی ہر نشانی مٹا دیتا ہے۔یہی انسانی نفسیات گجرات میں بھی متحرک ہوئی
اور اکبر نے گُجر قوم، گوجری زبان اور گوجری کلچر سب کچھ مٹا دیا، یا کم از کم صدیوں
پیچھے دھکیل دیا۔گجر قوم پر یہ عہد، عہدِ ستم ٹھرا۔لوگ بھاگ کر برصغیر کے مختلف علاقوں
میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔گوجری پر فارسی کو مسلط کر دیا گیا۔عربی فارسی ادبی
مزاج کے پیچھے چونکہ ایک بدمست شہنشاہ تھا اس لیئےاسے بہت جلد فروغ حاصل ہوا۔
اس دور میں گوجری جاننے والوں کی وہی حثیت رہ گئی تھی جو انگریزوں
کے دور میں صرف اردو جاننے والوں کی تھی۔گوجری لکھنے والے اکثر دکن میں ہجرت کر گئے۔فارسی
عربی زبان اور گجرات کی گوجری کے اس ملاپ سے گوجری زبان کے تحریری اور درباری لہجے
اور مزاج میں ایک نیا رنگ آیا۔یہاں سے لکھی اور دربار میں بولی جانے والی گوجری اور
گجرات کے عوام اور ہجرت کر جانے والے لوگوں کی زبان میں خاصا فرق آ گیا۔جو لوگ گجرات
سے دکن یا ہمالیہ کے پہاڑوں کی طرف ہجرت کر گئے وہ وہی قدیم خالص دیسی گوجری بولنے
لگے لیکن خود گجرات کے اندر مغلیہ کلچر کے زیر اثر لکھی جانے والی زبان یا دربار میں
بولی جانے والی زبان پہلی گوجری سے مختلف ہوتی گئی اور اس میں فارسی و عربی کا لسانی
مزاج اور ادبی روایات شامل ہو گئیں۔قلم و قرطاس اور دربار کی یہ زبان دھل نکھر کر آنے
والے دور میں،، اردو،، کہلائی جبکہ گجرات کی وہ پرانی گوجری وہاں سے انتقام کے ڈر سے
بھاگ جانے والے لوگوں کے پاس موجود رہی ۔یہ لوگ زیادہ تر ہماچل پردیس، جمعوں کشمیر،
شمال مغربی سرحدی صوبہ(موجودہ، خیبر پختوں خواہ) اور گجرات سے متصل دوسرے علاقوں میں
چلے گئے۔یہ لوگ اپنی زبان اور ثقافت بچانے کے لیے اور اکبر کے ظلم سے بچنے کے لیے مذکورہ
علاقوں میں آگئے لیکن ان کی زبان تحریر سے محروم ہو گئی۔یعنی لسانی خلا کا تصور تو
نہیں کیا جا سکتا مگر گوجری سقوطِ گجرات کے بعد بیسویں صدی کے آغاز تک قلم و قرطاس
سے نا آشنا رہی۔گوجری ان صدیوں میں فقط بولی جانے والی زبان رہی۔اس کا ادب لوک ادب
تک ہی محدود رہا اور سینہ بہ سینہ چلتا رہا۔گویا گوجری پہاڑوں اور جنگلوں میں پھرتی
رہی۔اور اسکے پہلو سے نکلنے والی اردو دربار اور پختہ تخلیقی اظہار کی زبان بن گئی۔اکبر
کے گجرات پر حملے کے بعد جو لوگ دکن وغیرہ گئے یا جو گجر پنجاب میں بس گئے وہ آہسہ
آہستہ گوجری زبان سے محروم ہوتے گئے اور وہاں کی زبان ہی اختیار کرتے گئے۔یہی وجہ ہے
کہ دکن یا پنجاب کے گُجر اب گوجری نہیں بولتے۔ان لوگوں نے ان علاقوں کے ماحول اور ثقافت
سے خاموش سمجھوتہ کر لیا اور وہاں کا کلچر اختیار کر لیا۔کچھ لوگوں نے انتقام سے بچنے
کے لیے اپنی شناخت بھی چھپانا شروع کی۔
1857ء کے
بعد خود مغل بھی اسی الم سے گزرے جب انگریزوں نے انہیں چن چن کر قتل کیا۔مغلوں نے فرنگی
انتقام سے بچنے کے لیے خود کو مغل کہلانا چھوڑ دیا تھا۔شاید تاریخ نے اپنے آپ کا دہرایا
ہو۔گجروں کے بارے میں ایسے نفسیاتی حربوں سے کام لیا گیا کہ خود گُجر اپنی زبان، ثقافت
اورتاریخ کو بے یقینی سے دیکھنے لگے۔انہیں سخت احساسِ کمتری میں مبتلا کر کے، ان کے
بارے میں گمراہ کن خیالات پھیلا کراپنی عظمت سے بے گانہ کر دیا تھا۔مگر لاشعور میں
عظمتِ رفتہ کے نقوش محفوظ تھے جنہیں شعور زمانے کی سختیوں کے پیش نظر بار بار لاشعور
کی خواب گاہوں میں دھکیل دیا تھا۔ان حالات میں جو گُجر اپنی زبان و ثقافت پر کوئی سمجھوتہ
نہ کر سکے۔وہ اس کو بچانے کے لیے بلند پہاڑوں پر چلے گئے۔یہاں گجروں کے تین گروہ بن
گئے۔جن لوگوں نے زمینداری شروع کر دی اور ایک ہی جگہ رہنے لگے وہ بسنیک(مقیم) گُجر
کہلائے۔جو گائے بھینس پالنے لگے اور دودھ بیچنے لگے وہ بنیہارے(دودھی) گُجر کہلائے۔جن
لوگوں نے بکریاں پالنا شروع کیں اور خانہ بدوش طرز زیست اختیار کی، انہیں بکروال گُجر
کہتے ہیں۔لیکن ان تینوں گروہوں کی گوتوں اور زبان میں کوئی فرق نہیں۔سماجی سطح پر بھی
لباس اور رہنے سہنے کا جو فرق ان تینوں گروہوں میں پایا جاتا ہے، وہ معاشی اور جغرافیائی
اعتبار سے ہے، مجموعی گُجر ثقافت کا فرق نہیں۔البتہ سیاسی اور معاشی اعتبار سے زمیندار
گُجر چونکہ زیادہ مضبوط ہیں۔اس لیے دوسرے گروہوں خصوصاً بکروال طبقے سے رشتہ داری وغیرہ
کو قطعاً اچھا نہیں سمجھتے۔کیا بکروال سماجی حثیت میں مسلم شُودر ہیں؟
اکبر کی طرح انگریزوں کے عہد میں بھی گُجر ظلم و ستم کا نشانہ
بنتے رہے۔ان کی قومی روایات، ثقافت اور زبان کو کم تر ثابت کرنے کے لیے ریاستی وسائل
استعمال ہوتے رہے۔بڑے پیمانے پر گُجروں کو اپنے اور اپنی زبان و ثقافت کے بارے میں
اِحساسِ کم تری میں مبتلا کرنے کے لیے نفسیاتی حربے استعمال کیے جاتے رہے۔یہی وجہ ہے
کہ برصغیر کی تاریخ اور زبانوں کے بیان میں گُجر اور گوجری کو نہ صرف نظر انداز کیا
گیا بلکہ ان کی تاریخ اور حقائق کو دھندلانے اور مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔اردو ادب
کی یا دیگر زبانوں کے ادبیات و لسانیات کی بات آئی تو گوجری کا ذکر نہ ہوا۔یہ تو کچھ
دیانت دار اور غیر جانب دار مستشرقین تھے جنہوں نے برصغیر کے وسیع جغرافیے پر پھیلے
ہوئے گُجر کلچر اور زبان کے حقائق اپنی تحقیقی کتب میں محفوظ کیے۔اس کے بعد رفتہ رفتہ
حالات بدلتے گئے یہاں تک کہ، 1947ء کو غلامی کی طویل سیاہ رات آزادی کے پرنور سویرے
میں بدل گئی۔
سولہویں صدی عیسوی سے لے کر بیسویں صدی کے پہلے ربع تک گوجری
احاطہ تحریر میں نہ آئی یا کم از کم اس کا کوئی ثبوت ہمارے پاس نہیں ہے۔تقسیمِ ہند
کے بعد جدید گوجری ادب کا دور شروع ہوتا ہے۔اردو، پنجابی اور خود گوجری کی اپنی مختلف
اصناف میں لوگوں نے لکھنا شروع کیا۔موجودہ دور میں گوجری کشمیر کے دونوں حصوں، سوات،
کاغان، چترال، دیر، ھزارہ اور افغانستان کے علاوہ بھارت کے مختلف علاقوں میں بولی جاتی۔لہجے
کے فرق کے ساتھ یہی زبان وسط ایشیا کی ریاستوں، نیپال اور چین کے صوبہ سنکیانگ میں
بھی بولی جاتی ہے۔جس رفتار سے شاعری، نثر اور تحقیق کے حوالے سے لوگ انفرادی طور پر
کام کر رہے ہیں اور مختلف علاقوں میں گوجری کے فروغ کے لیے ادارے قائم کیے گئے ہیں،
اس کے پیشِ نظر گوجری کا مستقبل روشن نظر آتا ہے، ان شاءاللہ، گوجری کے بارے میں انہی
خیالات کو معروف شاعر اسرائیل مہجور نے اشعار میں سمویا ہے ۔
لگے مِٹھا کی تھوڑ نہ کدی اس ناں
جس کی زمی ماں ہوئے کماد پیدا
شابا کہیے جیہا درخت نا تاں
جس کا پھل ماں ہوئے سواد پیدا
چنگی ہوئے نہ جد تک ماں کوئے
پُتر ہوئے نہ نیک نہاد پیدا
مِٹھی گوجری جیہی زبان کِہڑی
اردو ہوئی اس کی اولاد پیدا۔
فی زمانہ گوجری زبان کے تین المیے ہیں: ایک یہ کہ یہ زبان کسی
ایک علاقے کی مکمل لنگوافرینکا نہیں بلکہ مختلف علاقوں میں جزوی طور پر بولی جاتی ہے۔اس
لیے اس کی پہچان کسی جغرافیائی خطے کے بجائے قبیلے کے حوالے سے ہے۔دوسرا المیہ یہ ہے
کہ اس کا ذکر گُجر قوم کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا جبکہ یہی بات بعض نازک طبائع
پر گراں گزرتی ہے اور گوجری کا ذکر قبیلائی تعصب کا مترادف بن جاتا ہے۔تیسرا المیہ:
یہ ہے کہ عام لوگوں کی اکثریت گوجری کو گجروں کے محض ایک ہی طبقے یعنی بکروالوں کی
زبان سمجھتا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ گوجری زبان کو اسی طبقے نے زندہ رکھا ہے۔ناخواندہ
ہونے کی وجہ سے خالص گوجری کے نمونوں کے لیے آج کا محقق اسی طبقے سے رجوع کرتا ہے۔لیکن
ساری زبان کو ان تک محدود کرنا بڑی غلط فہمی ہے ۔مندرجہ بالا سطور میں گوجری کے آغاز
و ارتقا کے متعلق جو کچھ میں نے لگھا اس سے اہل علم حضرات اور ماہرین لسانیات کو اختلاف
کرنے کا پورا حق ہے ۔صحت مند تنقید اور علمی اختلاف ہی سے تو نئے گوشے سامنے آتے ہیں۔ابہام
اور غلطیوں سے بچا جا سکتا ہے۔تاہم نکتہ چینی کے لیے مندرجہ ذیل کتابیات کی خوشہ چینی
ضروری ہے۔
کتابیات،
1-ڈاکٹر
جمیل جالبی۔تاریخ ادب اردو، جلد اول و دوم۔
2- اشرف
ایڈووکیٹ۔اردو کی خالق گوجری زبان۔
3- رانا
غلام سرور،بابائے گوجری، گوجری ادبی سنگیت۔
4- عبدالحق
سیالکوٹی۔تارخ گوجراں۔
5- عبدالمجید
سندھی، ڈاکٹر میمن۔لسانیات پاکستان۔
6- حافظ
محمود شیرانی، پنجاب میں اردو، حصہ اول
7-پنجابی،
پہاڑی، گوجری، زبان و ادب، کورس برائے ایم فل۔پاکستانی زبانیں و ادب، AIOU..
8- ماہنامہ
قومی زبان، کراچی، جولائی 2002.
9- ماہنامہ
قومی زبان کراچی۔جولائی، 2004.
10. calvin R, Rensch(and othres) sociolinguistic servey
of nothern pakistan vol, 3,hindko and gojri, Quaid e Azam university Islamabad.
کتاب: گوجری کے ادبی و لسانی مطالعے
مصنف: پروفیسر محمد نذیر مسکین۔
انتخاب: محمد بشیر کھٹانہ